ڈانلوڈ کیجیے - سائز : 1 م ب سے کم
استاذِ محترم حضرت مولانا نور البشر محمد نور الحق صاحب مد ظلہم کو جامعہ بیت العلم (گلشن اقبال کراچی) کے مدیر حضرت مولانا مفتی محمد حنیف عبد المجید صاحب زید مجدہم کی طرف سے اپنے ادارہ میں کام کرنے والے مختلف شعبہ جات کے اساتذہ سے گفتگو کرنے کے لیے دعوت دی گئی۔ اس موقع پر کی گفتگو افادۂ عام کے لیے نذرِ قارئین ہے۔ (عطاء رفیع)
اقتباس:
امام محمد بن الحسن شیبانی رحمہ اللّٰہ کسی کے ملازم نہیں تھے، دن رات طلبہ کی خدمت کرتے تھے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ طلبہ کی خدمت کرنے کا موقع دن کو ہے، رات کو نہیں۔دن میں پڑھاتے تھے، اور رات کو عباد ت کرتے تھے اور امام محمد رحمہ اللہ کا معمول تو یہ تھا کہ رات کو استنباط کررہے ہوتے تھے۔لیکن امام اسد بن الفرات رحمہ اللّٰہ امام مالک رحمہ اللّٰہ کے ہاں سے سب کچھ پڑھ کر عراق میں امام محمد رحمہ اللّٰہ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت! میں بہت دور سے آیا ہوں، یہاں کا نہیں ہوں، المغرب سے آیا ہوں، افریقہ کا ہوں، طلب لے کر آیا ہوں، آپ تو سب کو پڑھاتے ہیں میں بھی پڑھ لوں گا لیکن میں آپ سے خصوصی وقت چاہتا ہوں ۔
امام محمدؒ کو آپ کون سا منصب دیں گے؟ مہتمم، صدر مہتمم، چانسلر، وائس چانسلر؟ وہ تو ان تمام عہدوں سے بہت بالا تھے، مصروفیات کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے، لیکن امام محمد رحمہ اللّٰہ نے ان کو وقت دیا، اور وقت بھی کیا دیا؟! فرمایا کہ تہجّد کے وقت آجاؤ، فجر سے پہلے۔اس وقت پڑھاؤں گا۔ استاد متیقظ ہیں، اور شاگرد جوان ہیں، پھر بھی، ان کے اندر وہ تیقظ کہاں! جوانی میں نیند ہوتی ہے، پیاری بھی اور بھاری بھی۔ ان کو اونگھ آتی ہے، طلب ہے صادق، لیکن طبیعت سے مجبور ! لا سلطان علی النوم، نیند کے اوپر تو کسی کا غلبہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا استاذ کے سامنے اونگھ رہےہیں اور امام محمد رحمہ اللّٰہ اپنے شاگرد کے سامنے پیالے میں پانی رکھ کر، پانی چھڑک رہے ہیں۔