حضرت شیخ کا انٹرویو جو ضربِ مؤمن میں (یکم اگست 2014ء مطابق 4 شوال 1435ھ کو) شائع ہوا۔
ضربِ مؤمن: اپنے علمی و تحقیقی سفر کے بارے میں بتائیے اور تحقیق و تخریج سے وابستگی کا بھی ذکر کیجیے؟
مولانا نور البشر: تحقیق و تخریج سے میرا تعلق کافی پرانا ہے۔ جب میں درجہ ثانیہ میں تھا تو استاد جی نے اپنے ساتھ لگا لیا، تخصصات کے رجسٹر مرتب کرنے کا کام سپرد کیا۔ اس کے بعد حوالہ جات کی تخریج پر لگا دیا۔اس طرح میں نے طالب علمی کے دور میں ہی تخریج کا کام کرنا شروع کردیا تھا۔ پھر درجہ ثانیہ سے دورہ حدیث تک درس ترمذی کی تخریج و تحقیق میں مصروفیت رہی۔ اس کے بعد دفتری کام بھی سپرد کیے گئے جو اپنی بساط کے مطابق سرانجام دینے کی کوشش کی۔ اس کے بعد حضرت الاستاد مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے فتح الملہم کا کام دیاکہ اس کی ترقیم کرو اور صحیح مسلم کی تخریج کرو، کیونکہ فواد عبد الباقی نے طرق کو الگ نمبر نہیں دیے تو ہر طریق کو الگ الگ نمبر دینے کا کہا۔ اس طرح فتح الملہم پر بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ فتح الملہم کا وہ حصہ جوعلامہ عثمانیؒ نے لکھا تھا اس کی پہلی 5 جلدیں مکتبہ دارالعلوم نے شائع کیں، ایک جلد کا کام باقی رہ گیا تھا کہ پھر وہ بیروت سے چھپنا شروع ہو گیا، اب مکمل کام بیروت سے چھپ کر آ گیا ہے۔ تو اصل کام فتح الملہم پر ہے یعنی صحیح مسلم کی تخریج اور فتح الملہم کی ترقیم۔ اس میں ضمنا میں نے بعض چیزوں کی تخریج کی ہے، لیکن وہ حکم نہیں تھا اس لیے سرسری اور کہیں کہیں ہے۔ اگر آپ فتح الملہم دیکھیں تو بعض حاشیوں کے آخر میں ’’ن‘‘ یا ’’ن ب‘‘ لکھا ہوا ہے، یہ حواشی میرے لکھے ہوئے ہیں یعنی نور البشر کے نام سے۔اس کے بعد میں دار العلوم سے اشرف المدارس چلا گیا۔ اشرف العلوم میں حضرت مولانا سبحان محمودؒ ’’کی تقریر بخاری‘‘ کی ’’کتاب بدؤالوحی‘‘، ’’کتاب الایمان‘‘ اور ’’کتاب العلم‘‘ پر کام کیا۔ باقی کام میرے جامعہ فاروقیہ آ جانے کے بعد ان کے صاحبزادے نے کیا۔ جامعہ فاروقیہ میں جو مشغلہ ملا، وہ ’’کشف الباری‘‘ کا ہے۔ یہ تقریبا پانچ جلدیں ہیں، اور کشف الباری کی ایک اور جلد پر کام کروں گا۔ کتاب الوضوء کی جلد آنے والی ہے اور کتاب الوضوء ہی کی ایک دوسری جلد پر کام کروں گا۔ یہاں تک میرا کام مکمل ہو جائے گا، آگے کچھ اور ساتھی کام کریں گے۔
ضربِ مؤمن: آپ کو اس تخصص فی الحدیث اور تخصص فی الفقہ کے مشترکہ تخصص کا خیال کیسے آیا؟
مولانا نور البشر: آج سے تقریباً سات، آٹھ سال پہلے تخصص فی الحدیث کے لیے جامعہ فاروقیہ گیا تو حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم اس وقت سفر میں تھے۔ مجھ سے فرمایا: ’’نصاب مرتب کرو اور اس پر کام شروع کرو!‘‘ تو پھر میں نے بنوری ٹاؤن کا نصاب دیکھا اور اپنا نصاب مرتب کیا، اس نصاب کو حضرت کے سامنے بھی رکھا اور پھر ایک دفعہ ہنگو کے مولانا امین صاحب اورکزئیؒسے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان کے سامنے یہی نصاب رکھا تو انہوں نے بہت زیادہ حوصلہ افزائی فرمائی۔
ضربِ مؤمن: آپ نے ان حضرات کو صرف حدیث شریف کا نصاب دکھایا تھا یا حدیث و فقہ کا مشترکہ نصاب؟
مولانا نور البشر: صرف حدیث شریف کا نصاب ان حضرات کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ پھر میں نے غور کیا کہ ہم جو تخصص فی الحدیث کا نصاب پڑھا رہے ہیں، اس میں کچھ تدریسی کتابیں ہیں اور کچھ تدریب ہے۔ تدریسی کتابوں اور فقہاء کے مواد کا موازنہ کر کے دیکھا تو احساس ہوا کہ ان دونوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ ایک سال میں فقہ و حدیث کی کتابوں کی مشترکہ تدریس کر لیں اور اس کے ساتھ ہلکی پھلکی مشقیں کر لیں، اس کے بعد اگلے سال بھر پور انداز سے مشقیں ہو جائیں اور پھر مقالہ جات بھی لکھوائے جائیں تو ان شاء اللہ دونوں علوم پر مہارت حاصل ہو جائے گی۔ اس کے بعد جو بھی ساتھی ملا، اس کے سامنے یہ بات رکھی، بعض ہنس کے ٹال دیتے اور بعض دیوانے کی بڑ سمجھ کے نظر انداز کر دیتے اور بعض ساتھی واقعی دلچسپی لیتے، سراہتے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
اس طرح دو تین سال آزمائش پر رکھا اور مختلف جگہوں پر یہ بات رکھی تو الحمد للہ شرح صدر ہوتا گیا۔ پچھلے سال جب جامعہ فاروقیہ سے رخصت لے کر یہاں ’’معہد عثمان بن عفان‘‘ میں آیا تو کچھ احباب کا تقاضا ہوا کہ تخصص فی الفقہ اور تخصص فی الحدیث ساتھ ہونا چاہیے۔ اس مدرسہ میں دورہ حدیث شروع ہوئے تین چار سال ہو گئے ہیں، اس لیے اپنے طلبہ کی طرف سے بھی تقاضا تھا اور باہر سے بھی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ ساتھیوں نے توجہ دلائی کہ تخصص فی الفقہ ہر جگہ ہو رہا ہے، ہم کیوں نہ فقہ اور حدیث کا مشترکہ تخصص شروع کریں۔ الحمد للہ! ہمارے یہاں دارالعلوم کراچی کے متخصص ساتھی ہیں جو فقہ میں اچھا درک رکھتے ہیں اور کچھ مجھے بھی جامعہ فاروقیہ میں حدیث کا تجربہ ہو گیا تھا، بلکہ جامعہ فاروقیہ میں جہاں میں نے تخصص فی الحدیث شروع کیا وہاں دو تین سال میں نے اکیلے چلایا تھا، کوئی معاون نہیں تھا، تو اس طرح ہمت ہوئی اور ہم نے تخصص فی الفقہ و الحدیث کا نصاب مرتب کر لیا۔ یہ ایسا نصاب ہے جوجامعہ فاروقیہ کے نصاب سے بھی ذرا الگ تھلگ ہے۔ ایک سال ہمارا تجرباتی گزرا ہے، جس سے اندازہ یہ ہوا کہ الحمد للہ! اچھا گزرا ہے۔
اب ہمارے بچے جو استفتاء ات لکھ رہے ہیں یا تدریبی مشق کر رہے ہیں، یہ مشق اس طرح ہو رہی ہے کہ جوابات میں دلائل کے لیے پہلے قرآن کریم کی آیات ذکر کرتے ہیں، صریح حدیث کا جزئیہ مل جائے تو بھر پور تخریج کے ساتھ اس کا جواب دیتے ہیں اور اس کے بعد فقہی کتب سے جزئیات نکال کر اس میں دلائل جمع کر دیتے ہیں۔ اب ان طلبہ کے لیے حدیث کی تخریج کوئی چیز اجنبی نہیں ہے۔ یہ طلبہ کسی بھی حدیث کی تخریج کر لیتے ہیں، البتہ ابھی چونکہ پہلا سال ہے اس لیے اس قدر مشق نہیں ہوئی کہ حدیث کی اسنادی اعتبار سے تصحیح یا تضعیف کر لیں، یہ مشق ابھی باقی ہے، یہ ان شاء اللہ آئندہ سال ہو جائے گی۔
ضربِ مؤمن: حدیث اور فقہ کو جمع کر کے دو سال میں تخصص کرانے کا بنیادی خیال کس وجہ سے آیا؟
مولانا نور البشر: بنیادی وجہ یہ تھی کہ حدیث شریف پڑھنے والے یا تخصص فی الحدیث کرنے والے اپنے آپ کو ماورائی مخلوق سمجھنے لگے تھے، اور فقہاء کو کسی معاملے میں در خور اعتناء نہیں سمجھتے تھے۔ فقہاء کے کلام کو معمولی سمجھتے تھے، فقہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ فقہ میں تخصص کرنے والوں سے حدیث کی معمولی سی بات پوچھ لیں تو وہ ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔ کبھی ادھر دوڑتے ہیں کبھی ادھر دوڑتے ہیں کہ اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ یہ حدیث کہاں سے لائیں گے؟ اور اس کا حکم کیا ہو گا؟ یہ سخت پریشانی تھی جب کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے الگ ہونے والی نہیں ہیں، ہمارے متقدمین عموما حدیث سے استدلال کر رہے ہیں اور تخریج حدیث بھی کر رہے ہیں، اس کی علل کو بھی بیان کر رہے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ ان بچوں کے سامنے ایسا نمونہ پیش کر دیں کہ آگے ان کو ایک راستہ مل جائے۔ تحقیق کا راستہ معلوم ہو جائے اور یقین جانئے اس مقصد کے لیے دو سال کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں۔ تخصص فی الحدیث کا مطلب یہ ہوا کہ وہ صرف فن حدیث میں ہی نہیں بلکہ فن سیر اور فن تاریخ کو بھی مکمل طور پر لے لیتا ہے اور اس کی چھان پھٹک کر لیتا ہے اور فن تاریخ کی وجہ سے جو اعتراضات اسلام پر وارد ہوتے ہیں، ان سب کی تحقیق بھی ان سب کے ضمن میں ہو جاتی ہے۔
ضربِ مؤمن: دو سال میں اس نصاب کو پڑھانے میں دو باتوں کا امکان رہتا ہے: یا تو طالب علم پر بوجھ بہت پڑتا ہے یا کوئی ایک چیز کم رہ جاتی ہے اس کو کیسے حل کیا؟
مولانا نور البشر: یقینا آپ صحیح فرما رہے ہیں کہ بوجھ سمجھا جائے گا کیونکہ کہیں بھی اس کی نظیر نہیں ہے، لیکن دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بعض ایک سالہ تخصص کرانے والے 18,18 گھنٹے کام لیتے ہیں 20,20 گھنٹے بھی کام لیتے ہیں، اور ان پر بوجھ اس طرح ڈالا جا رہا ہے کہ دو سال، تین سال کا کام ایک سال میں لیا جاتا ہے۔ تو ہم یہ کیوں نہیں کر سکتے۔ اپنے ان ساتھیوں پر غیر محسوس انداز سے بوجھ ڈال دیں اور بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے ان سے تسلی کی بات کرتے رہیں۔ میں آپ کو ایک عجیب واقعہ بتاؤں:
ہم دارالعلوم میں درجہ اعدادیہ میں پڑھتے تھے۔ ایک سال کا درجہ اعدادیہ ہوتا تھا اور ایک سال میں ہم نے 18 کتابیں پڑھیں ان 18 کتابوں میں جہاں اردو نصاب وغیرہ ہے، وہاں آداب المعاشرت، آداب النبی، تعلیم الاسلام کے چار حصے اور معلوم نہیں کیا کیا کتابیں تھیں، ساری کی ساری زبانی ہوتی تھیں اور اس وقت طریقہ یہ تھا کہ ایک کتاب ختم ہوتی تھی، مولانا شمس الحق جیسی شخصیت امتحان لیتی تھی، صحیح ہوتا تو آگے بڑھنے دیتے ورنہ بڑھنے نہ دیتے۔ تو ہمیں کبھی بوجھ محسوس نہیں ہوا کہ ہم نے 18 کتابیں پڑھیں ہیں اور ان کا امتحان دیا ہے۔
دراصل یہ استاد پر ہے کہ کتنی دلچسپی سے کتاب پڑھاتا ہے اور طلبہ کے اندر فن منتقل کر دیتا ہے۔ اگر استاد کے اندر دلچسپی ہو اور ماہر ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ بوجھ بالکل نہیں ہو گا۔ بوجھ تب ہو گا جب آپ طلبہ کو بالکل ہی اکیلا چھوڑ دیں، کہ بھائی تم جو چاہو کرو! تخصص کا مطلب یہی ہے کہ خود محنت کرو اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تخصص خود محنت کرنے کا نام ضرور ہے، لیکن استاد کی رہنمائی کے بغیر یہ طلبہ آگے بڑھ ہی نہیں سکتے۔ تو اگر اساتذہ ماہر اور تجربہ کار ہوں (ماشاء اللہ! ہمارے ہاں فقہ کے اساتذہ کا 20,25 سالہ تجربہ ہے) اس اعتبار سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس انداز سے وہ لے کر چلیں گے تھوڑی سی رہنمائی بھی بہت ہو جائے گی۔
ابھی ہمارے کوئٹہ کے ایک ساتھی نے احکام القرآن للجصاص پر کام کیا ہے۔ انہوں نے پورا کام کر لیا، اس کے بعد مجھے دیکھنے کا کہا، لیکن کام بہت بڑا تھا اس لیے میں تصدیق نہیں کر سکتا تھا جب تک ایک ایک حرف نہ دیکھ لوں۔ مجھے یہاں وقت نہیں مل رہا تھا، میں ان کے پاس چلا گیا۔ میں نے کہا: میں 5,6 دن آپ کے ساتھ جم کر بیٹھوں گا، ادھر ادھر نہیں نکلوں گا، اگرچہ میں اس میں کامیاب نہیں ہوا، لیکن میں ان کے ساتھ دو دن ایک رات بیٹھا تو اس کی آنکھیں کھل گئیں باوجودیکہ وہ ساتھی متخصص فی الفقہ ہے، لیکن حدیث کا کام کرنے کا طریقہ نہیں آتا تھا۔ تو اس اللہ کے بندے نے پھر از سر نو کام شروع کیا اور کہا! مجھے ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔ اب وہ کام دوبارہ کر کے لایا ہے۔ تو اگر اساتذہ صحیح رہنمائی کر دیں اور ان کو طریقہ کار بتا دیں تو میں سمجھتا ہوں کہ آگے بڑھنے کے لیے دروازے کھلے ہیں، اور ہمارے طلبہ کام کر کے دکھا سکتے ہیں، باقی اللہ تعالی کام لینے والے ہیں وہ کسی سے بھی کام لے سکتے ہیں۔
ضربِ مؤمن: اس میں آپ نے تین حصے تدریس، مطالعہ اور تخریج کے ذکر فرمائے ہیں، تدریس کے لیے تو اساتذہ موجود ہیں، مطالعہ اور تخریج کی نگرانی کے لیے کیا ترتیب رکھی ہے؟
مولانا نور البشر: ہم نے ان طلبہ کے لیے جو اوقات تعلیم بنائے ہیں ان میں سے کسی بھی وقت میں ان کو خالی نہیں چھوڑا، یا تو تدریسی گھنٹے موجود ہیں یا وہاں نگران استاد موجود ہیں۔ اس طرح طلبہ ان کے سامنے مطالعہ بھی کرتے ہیں، تخریج بھی کرتے ہیں اور فتاوی بھی لکھتے ہیں۔ پھر ان کی جانچ پڑتال بھی ہوتی ہے۔ اس طرح ان کو کسی بھی وقت خالی نہیں چھوڑا جاتا، صرف تدریسی رہنمائی نہیں ہے بلکہ یہاں پر تدریبی رہنمائی بھی ساتھ ساتھ ہے۔
ضربِ مؤمن: تعلیمی اوقات سے آپ کی کیا مراد ہے؟
مولانا نور البشر: مثلاً اوقات تعلیم 8 بجے سے 12 بجے تک اور پھر ظہر کے بعد، اسی طرح مغرب اور عشاء کے بعد، یہ تمام اوقات تعلیم جو رسمی ہیں۔ ان تمام میں نگرانی ہے باقی ترغیب ہم یہ دیتے ہیں کہ بھئی تخصص کا سال ہے، اس میں سونا کم ہے اور تقلیل منام کا مجاہدہ یہاں کرنا ہے اور تقلیل منام کرواتے ہیں۔ ضربِ مؤمن: فقہ اور افتاء والوںکی تمرین میں تو ابتدائی طور پر استاد سوال دیتا ہے، پھر باہر سے آنے والے سوالات بھی دیے جاتے ہیں تو آپ کے ہاں کیا ترتیب ہے؟
مولانا نور البشر: فتاوی کے سلسلے میں تو ہمارے ہاں بھی یہی طریقہ کار ہے البتہ حدیث کے سلسلے میں ہم ان کو ایسی کتاب سے جس کا ان کو صحیح طور پر پتہ نہ چلے، صرف حدیث نقل کر کے دیتے ہیں، صرف متن دیتے ہیں اور اس پر اعراب، تحقیق اور حاشیہ کا نام و نشان تک نہیں ہوتا یعنی غیر محقق ہوتی ہے، کہ اس پر تخریج کرو۔ شروع میں صحاح ستہ کی تخریجات ہوتی ہیں اس کے بعد پھر توسع ہوتا چلا جاتا ہے۔ ضربِ مؤمن: آ ج کل تو مکتبہ شاملہ ہے، طلبہ فورا حوالہ جات نکال لیتے ہوں گے؟
مولانا نور البشر: تمام طلبہ پر پابندی ہے کہ کوئی بھی کمپیوٹر استعمال نہ کرے، کمپیوٹر کا استعمال زہر قاتل ہے۔ البتہ مقالے میں جب پہنچتے ہیں تو اس وقت تک کافی مشق ہو چکی ہوتی ہے تو اس وقت شاملہ وغیرہ کی اجازت ہے دوسرے سال میں، اس سے پہلے نہیں ہے۔
ضربِ مؤمن: اس طرح کا تخصص اگر پرانے مشرفین اپنے ہاں جاری کرنا چاہیں، کچھ مناسبت ہو تو اس میں کیا بنیادی اصول ہیں، جن کی طرف آپ رہنمائی کریں گے، اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے کیا کریں، پھر طلبہ کی نگرانی کے دوران کیا اصول اپنائیں؟
مولانا نور البشر: میں تو آپ سے زیادہ ناواقف ہوں، میں تو صرف اتنی بات کہہ سکتا ہوں کہ ایک استاد اپنے جذبے سے جو کام کر کے دکھاتا ہے اس کے اندر اس کے اپنے اجتہاد کا بہت زیادہ دخل ہوتا ہے، اصول موضوعہ کام نہیں آتے، کوئی بھی استاد کسی بھی فن کے اندر اپنے طالب علم یا شاگرد کو آگے بڑھانا چاہے تو اس کو اجتہاد کرنا پڑے گا۔ اپنی تدریسی زندگی میں میرا یہی تجربہ ہے، یہی کرنا پڑے گا، اجتہاد کرنا ہو گا۔ باقی اصول موضوعہ میرے پاس ہیں نہیں۔
ضربِ مؤمن: مطالعہ کی نگرانی کا کیا نظم ہے؟ ہر طالب علم کے سامنے کتاب ہوتی ہے، ہر طالب علم سے سنا جاتا ہے؟
مولانا نور البشر: جی! ہر طالب علم سے نہ صرف سنا جاتا ہے، بلکہ باقاعدہ امتحان لیا جاتا ہے، مطالعے کی کتب کا بھی تحریری امتحان ہوتا ہے۔
ضربِ مؤمن: مقالے کی کیا نوعیت ہوتی ہے؟
مولانا نور البشر: ابھی تک تو ہمارا پہلا سال گزر رہا ہے، جب دوسرا سال آئے گا تو اس کے لیے ہم نے یہ صورت سوچی ہے کہ کوئی ایسا مقالہ ہو جو جامع بین الحدیث و الفقہ ہو، ایسے موضوعات دیے جائیں گے جو دونوں چیزوں کا جامع ہو۔
ضربِ مؤمن: بڑی بڑی شخصیات جنہوں نے آپ کے اس جمع بین الحدیث و الفقہ کے تخصص کے نظریے کی تائید کی ہو نصاب دیکھنے کے بعد، یا یہاں تشریف لائے ہوں حوصلہ افزائی کی، ان کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟ مولانا نور البشر: ان میں دارالعلوم سے مفتی عبدالمنان صاحب یہاں تشریف لائے، انہوں نے اس کو دیکھا تو کافی خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ مولانا عزیز الرحمٰن صاحب وغیرہ کو ہم نے اپنا نصاب دکھایا انہوں نے بھی اطمینان کا اظہار فرمایا۔
ضربِ مؤمن: تخریج دیکھنے والے کتنے اساتذہ ہیں؟
مولانا نور البشر: فقہ کو دیکھنے والے 3,4 استاد ہیں، اور حدیث کو میں اکیلا دیکھتا ہوں، فقہ کے جوابات آخر میں میں بھی دیکھتا ہوں، اگرچہ اس کا اہل نہیں، لیکن ساتھیوں نے کہا تو تعمیل حکم کے لیے دیکھتا ہوں۔
ضربِ مؤمن: اس تخصص میں بنیادی زور کس موضوع پر زیادہ دینا چاہیے، جس سے طلبہ آگے کام کریں، تدریس، مطالعہ اور تخریج میں کس پر؟
مولانا نور البشر: اصول حدیث جو ہمارے ہاں پڑھائے جاتے ہیں، وہ سرسر ی پڑھا کر ختم کر دیتے ہیں، گہرائی سے نہیں پڑھائے جاتے۔ سب سے پہلے اس کی طرف توجہ دینی چاہیے، اور مطولات کو سامنے رکھ کر تدریس کرنی چاہیے۔ دوسرے دورہ حدیث میں ہمارے ہاں حل کتاب کا مطلب فقہی مباحث کو حل کرنا سمجھا جاتا ہے، اس کے بعد قال ابو عبد الرحمن ہو یا قال ابو عیسیٰ ہو ان کو کما حقہ حل نہیں جاتا، اور ظاہر ہے یہ علل حدیث سے متعلق چیزیں ہیں، اور اصول حدیث سے مناسبت ہو جائے تو دوسرے نمبر پر علل حدیث کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے علل حدیث کی کتابوں پر ترکیز ہونی چاہیے۔ اسی طرح حدیث کو فقہی طریقے سے رد کرنا فطری نہیں، بلکہ محدثین کے اصول کے مطابق رد کرنا چاہیے، اسی جہت سے کلام ہو، تردید ہو یا تائید ہو، لیکن ساتھ ساتھ اصول فقہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ان اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے، لیکن اصول حدیث کو مقدم رکھنا چاہیے۔
ضربِ مؤمن: مطالعہ میں آپ طالب علم کو کن کتابوں کا اہمیت سے مطالعہ کرواتے ہیں؟
مولانا نور البشر: بعض جگہوں میں یہ ہوتا ہے کہ حنفی مذہب کو ترکیز کر کے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہم نے اس بات کو پیش نظر نہیں رکھا۔ اس لیے کہ حدیث، حدیث ہے اور اصول حدیث کی رو سے حنفیت اور شافعیت کی تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہر حال علماء کے اقوال اپنی جگہ ہیں، امام ابو حنیفہ کے اصول یہ ہیں اور امام شافعی کے اصول یہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ اپنی جگہ برحق ہے، لیکن ہم نے ترکیز اس کے اوپر نہیں رکھی کہ امام ابو حنیفہ کا ہی مذہب لے کر ہم چلیں گے۔ اس وجہ سے ہم عمومی اصول حدیث کی کتابوں کو زیادہ دیکھتے ہیں، مثلا توجیہ النظر، فتح المغیث ہے، ان کو زیادہ توجہ دیتے ہیں، کیونکہ تحقیقی اور محرر کتابیں یہی ہیں۔ اس کے بعد ہم حنفی اصول فقہ کی کتاب ’’کتاب السنۃ‘‘ پر توجہ دیتے ہیں، تاکہ ہم حنفیت کے اصول کو نظر انداز نہ کر سکیں۔
ضربِ مؤمن: حدیث اور فقہ دونوں کا اکٹھا تخصص اگر ہو تو طلبہ کا اچھا اور مناسب عدد کیا ہونا چاہیے؟
مولانا نور البشر: میرے خیال میں 15,20 سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے، اس سے زیادہ کنٹرول کرنا کافی مشکل ہے، کیونکہ کام زیادہ ہے اور وقت کم ہے اور استاد کو کافی وقت دینا پڑتا ہے۔ تو 15,20 کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ نابغین کے بارے میں کہہ نہیں سکتا۔
ضربِ مؤمن: احکام القرآن پر کتنا کام ہو چکا ہے؟
مولانا نور البشر: اس کتاب پر دراصل ایک طالب علم کا کام ہے۔ انہوں نے مجھ سے مشورہ کرنا شروع کیا تو میں نے ذرا اس کو سختی کے ساتھ لیا، تو اب آگے جانے ہی نہیں دے رہا جب تک میں مطمئن نہ ہو جاؤں۔ مخطوطات پر تحقیق کا اصول کیا ہے اس کے بارے میں طالب علم کو پڑھایا۔ اس کے بعد طروق کو کیسے ضبط کرنا ہے؟ ان چیزوں کو بتانا پڑا، اس کے بعد تخریج حدیث کا طریقہ کیا ہے؟ اور خود مصنف نے جو حدیث ذکر کی ہے اسی کی تخریج کرنی ہے یا اس سے ملتی جلتی چیز کی تخریج کرنی ہے؟ ایسی بہت ساری غلطیاں تھیں جن کی نشاندہی میں نے کی۔ اس وجہ سے وہ ازسر نو کر کے لائے تھے۔ ماشاء اللہ! میں دیکھ رہا ہوں اچھا کام نظر آ رہا ہے، باقی زاد الفقیہہ کا کام مجھے دکھایا ہے، ماشاء اللہ! اچھا کیا ہے۔
ضربِ مؤمن: تخصص فی الحدیث میں حنفیہ کی تائید، ان کے موقف کی تقویت کے لیے بالاستقلال کچھ رکھا ہے؟
مولانا نور البشر: نہیں! بالاستقلال سامنے کچھ نہیں رکھا، اور میں اس کو ضروری اس وجہ سے نہیں سمجھ رہا تھا کہ جب ہم اصول و ضوابط ساتھیوں کو پڑھا دیں گے، اور ہم حنفی ماحول میں رہتے ہیں تو امید یہ ہے کہ یہ خود اس کو لے کر آگے بڑھیں گے۔ مستقل رکھنے کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ آپ دیکھیں انوار الباری شرح صحیح البخاری مولانا احمد رضا بجنوری کی، وہاں ہر دو تین صفحے پر جہاں امام صاحب کا نام آ جائے وہاں دو تین صفحے امام صاحب کے مناقب پر لکھ دیتے ہیں۔ جب کہ موضوع کتاب وہ ہے نہیں، تو آپ صرف حنفیت کو کیوں لے رہے ہیں؟ تو اس سے میرے خیال میں تاثر صحیح نہیں ملتا۔ اس لیے ہم یہ چاہتے ہیں کہ اعتدال اس طرح رہے کہ ہم تو حنفیت کو چھوڑنے والے نہیں، اور باقی اصول ہمارے ہاتھ آجائیں، حنفی اصول بھی ہمارے سامنے آجائیں، تو ان اصولوں کی بنیاد پر ہم بحث کر سکتے ہیں۔
اس صورت میں تعصب نہیں رہتا، اپنے مذہب پر ہم متصلب ہیں، لیکن تعصب نہیں رہتا، اور دوسری صورت میں تعصب کی وجہ سے ان کے جائز دلائل کو بھی رد کرنے کی صورت پیدا ہو جاتی ہے جب کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے منصف مزاج مصنفین میں علامہ زیلعیؒ شمار ہوتے ہیں، وہ کہہ دیتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ ان کی دلیل صحیح ہے، اسی طرح نوویؒ اور خطابیؒ ہیں یہ سب باوجودیکہ اپنے اپنے مذہب کی طرف کافی میلان رکھتے ہیں اور ترجیح بھی دے دیتے ہیں اس کے باوجود انصاف سے کام لیتے ہیں۔ تو اس اعتدال کو پیدا کرنے کے لیے ہم نے با قاعدہ مستقل طور پر ’’مستدلات حنفیہ‘‘ کو مو ضوع نہیں بنایا، البتہ اعلاء السنن کو سامنے رکھا ہے اسی طرح تلخیص الحبیر اور نصب الرایہ کو بھی سامنے رکھا ہے تا کہ نمونہ ہمارے سامنے آئے کہ قوت دلیل کی بنیاد پر بحث کس طریقے سے کرتے ہیں؟
ضربِ مؤمن: پاکستان میں تخصص فی الحدیث کہاں کہاں ہو رہے ہیں؟
مولانا نور البشر: اصل تو مرکز بنوری ٹاؤن ہے، اس کے بعد جامعہ فاروقیہ میں شروع ہوا ہے۔ بنوریہ میں بھی ہے، اشرف المدارس میں بھی ہے، اور یہاں سے مولوی ساجد صاحب فاروقیہ سے گئے ہیں انہوں نے بھی اسلام آباد میں شروع کر رکھا ہے، پشاور میں ہمارے ایک ساتھی نے شروع کیا تھا، لیکن برقرار نہیں رکھ سکے ماحول اور حالات کی وجہ سے۔ وہ بھی اچھے ساتھی ہیں دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اب ماشاء اللہ سے جامعۃ الرشید والے حضرات شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے۔ میں بھی ہر ممکن تعاون کے لیے حاضر ہوں۔